نئی دہلی،4ستمبر(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا) اتوار کے روزہونے والی کابینی رد وبدل میں محض وزیر اعظم نریند مودی کی ہی مرضی نہیں بلکہ اس میں آر ایس ایس کا بھی دخل نظر آرہا ہے۔ حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو اس توسیع میں وزیر اعظم کی مرضی اتنی نظر نہیں آرہی ہے، جتنا سنگھ کا اثر دکھائی دے رہا ہے۔ توسیع کے کسی بھی فیصلے سے ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے کہ وزیر اعظم حکومت کی کارکردگی کو بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وزارت دفاع جیسا قلمدان نرملا سیتارمن کو نہیں دیا جاتا۔ توسیع سے قبل اس بات کی عام چرچا تھی کہ نرملا سیتا رمن کو خراب کارکر دگی کی وجہ سے ہٹایا جا سکتا ہے اور جو وزارت ان کے پاس تھی اس میں بھی کوئی نمایاں کارکردگی نظر نہیں آئی پھر نہ جانے ان کو اتنی بڑی ذمہ داری کے لئے کیوں منتخب کیا گیا۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بہت کم لوگوں کے پاس ہے، کیونکہ اگر یہ فیصلہ انتخابی سیاست کو ذہن میں رکھتے ہوئے لیا گیا ہے تو بھی اس میں وزن نظر نہیں آتا کیونکہ نرملا سیتارمن جس ریاست سے آتی ہیں وہاں پر این ڈی اے اتحادی چندرا بابو نائڈو کی حکومت ہے اس لئے بی جے پی کے لئے اس ریاست میں زیادہ کچھ نہیں ہے۔
نرملا سیتارمن کی سب سے بڑی خصوصیت صرف یہ ہے کہ اپنی بات کو پیش کرنا بہت اچھی طرح جانتی ہیں اور اسی لئے ان کا شماربی جے پی کے کامیاب ترجمان میں ہوتا ہے۔یہ بہت ممکن ہے کہ کارپوریٹ امور کی وزارت کے دوران کارپوریٹ گھرانوں سے ان کے مراسم اچھے بنے ہوں اور کیونکہ وزارت دفاع اب ایک ایسی وزارت ہے جہاں اندرونی اور بیرونی ممالک کے کارپوریٹ گھرانوں کی دلچسپی زیادہ بڑھ رہی ہے۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ ان گھرانوں نے ان کے لئیبلے بازی کی ہو۔ مگر اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیکہ نرملا سیتا رمن کی غیر معمولی ترقی میں کچھ تو ایسا ہے جو نظر نہیں آ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نرملا سیتا رمن کی تعریف میں زیادہ کچھ نہ کہہ کر اس بات کی تشہیر زیادہ کی جا رہی ہے کہ وہ دوسری خاتون وزیر دفاع ہیں۔نرملا سیتارمن کے علاوہ اوما بھارتی کو وزارت سے نہ ہٹا پانا اور پرہلاد پٹیل کو کابینہ میں شامل نہ کر پانا اپنے آپ میں واضح اشارہ ہے کہ وزیر اعظم اتنے مظبوط نہیں ہیں کہ وہ اپنی مرضی چلائیں۔ اقتدار کے گلیاروں میں یہ بھی چرچا ہے کہ وزیر اعظم نے سشما سوراج اور راج ناتھ کو ان کے قلمدان تبدیل کرنے کے بارے میں مطلع کر دیا گیا تھا لیکن بعد میں یہ بات سنگھ تک پہنچی جس کے بعد فیصلہ بدلا گیا۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ اس توسیع میں ارون جیٹلی کے قریبیوں کو زیادہ جگہ ملی ہے اور اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ نہ صرف جیٹلی اپنے قریبی ہردیپ پوری کو وزیر بنوانے میں کامیاب رہے بلکہ ان کو شہری ترقی کا آزادانہ چارج دلوانے میں بھی کامیابی حاصل کی۔ واضح رہے دہلی کی سیاست میں شہری ترقی کی وزار ت کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ اس کے تحت ہی دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے)آتی ہے۔
دھرمیندر پردھان کو کابینہ وزیر بنانے کے ساتھ ان کی وزار ت میں کوئی تبدیلی نہیں کی جس کی بڑی وجہ اس وزارت میں ایک خاص کارپوریٹ گھرانے کا دخل ہے۔ دھرمیندر پردھا ن کی ترقی میں سنگھ کے اس مقصد کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ بی جے پی اب اپنا دائرہ شمالی ہندوستان سے آگے بڑھانا چاہتی ہے اور اڈیشہ، تمل ناڈو اور کیرالہ کا اس توسیع میں اہم کردار ہیں۔ کیرالہ کی وجہ سے الفانسو آر ایس ایس کی پسند رہے ہیں اور تمل ناڈو کے تعلق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا فیصلہ جب لیا جائے گا جب وہاں پر اے آئی ڈی ایم کے کے تمام دھڑوں میں اتحاد ہو جائے گا۔تیسری کابینہ کی توسیع جس کی بہت زیادہ تشہیر کی گئی تھی اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ اس ردو بدل میں آر ایس ایس کا اثر زیادہ دکھائی دیا۔ آر ایس ایس مودی حکومت پر اس قدر حاوی ہے کہ کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مودی خود بونے ہیں۔اس میں بھی کو ئی دو رائے نہیں ہے کہ ابھی تک بہترین تقاریر کے علاوہ وزیر اعظم نے ملک کو کچھ نیا نہیں دیا ہے بلکہ جس جانب ملک کی معیشت گامزن ہے اور نئی نسل میں بڑھتی بے روزگاری کی وجہ سے اس کی بے چینی میں اضافہ ہوا ہے وہ ملک کے مستقبل کے لئے اچھا نہیں ہے۔ وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ کابینہ کی توسیع ہو یا کوئی بھی حکومت کا فیصلہ اس کو ایونٹ بناکر پیش کرنے کے بجائے عوام کو زمین پر کچھ راحت پہنچایئں، کیونکہ وہ مضبوط جب ہی ہوں گے جب ملک اور ملک کی عوام مضبوط ہوگی، مگر کیا وہ ایسا کر پائیں گے۔کیا مودی سرکار پرسے سنگھ کا کبھی سایہ ہٹ پائے گا!۔